ایک گاؤں میں ترکھان قوم آباد تھی ان کی نظر مشہور تھی‘ان ترکھان بھائیوں میں سے ایک کا واقعہ ہے وہ ایک زمیندار عیسیٰ خان کے گھر ان کا کوئی لکڑی کا کام کرنے گیا‘ گھروں سے دور ہٹ کے ان کے ڈیرے پر کام کررہا تھا‘ عیسیٰ خان ان کیلئے گھر سے کھانا لینے گیا تو ان کی دو سال کی بیٹی فضیلت گول گپی‘ گوری چٹی خوبصورت سی تھی اس کی ماں نے نہلا دھلا کر کنگھی کی‘ سرمہ ڈالا‘ اچھے کپڑے پہنارکھے تھے‘ جیسے ہی اس نے اپنے والد کو دیکھا تو اس کی گود میں آگئی وہ اسے اٹھائے اٹھائے باہر ڈیرے پر آگئے جہاں ترکھان لکڑی کا کام کررہا تھا وہ بچی دل چسپی سے دیکھنے لگ گئی جوں ہی وہ لکڑی کو ٹھک ٹھک کرتا بچی کھل کھلا کر ہنس پڑتی‘ ترکھان نے بچی کو دیکھا اور کہا جٹی بی بی! کیا بات ہے میرا کام آپ کو بڑا پسند آرہا ہے‘ بچی قہقہے لگا کر ہنسنے لگی‘ تھوڑی دیر کے بعد عیسیٰ خان بچی کو واپس گھر لے آیا۔
جیسے ہی بچی گھر میں داخل ہوئی تو سست سست سی تھی‘ آنکھیں لال سرخ ہونا شروع ہوگئیں‘ آکر خاموشی سی لیٹ گئی‘ شام تک اسے تیز بخار نے آلیا‘ تین دن بخار میں پڑی رہی کھانا پینا چھوٹ گیا۔ تین دن کے بعد دیکھا تو اس کے منہ میں مسوڑھوں کی جگہ ایک پھوڑا پھوٹ رہا ہے۔
اس زمانے میں ڈاکٹر تو نہیں تھے دیہاتی پنساری وغیرہ کوئی ٹونہ ٹوٹکا کرتے تھے حتیٰ المقدور علاج معالجہ کروایا گیا۔ نظر کابھی خیال آیا وہ دم درود کروائے گئے لیکن بچی کو کہیں سے شفاء نہ ہوئی‘ منہ میں پھوڑا ہونے کی وجہ سے کھانا پینا ویسے چھٹ چکا تھا‘ وہ گول مٹول بچی ہڈیوںکا ڈھانچہ بن گئی‘ پھر وہ پھوڑا پھٹ گیا اس سے گندہ بدبودار مواد اور پیپ نکلتی۔ چلنے پھرنے والی بچی لاغر ہوکر چارپائی کی ہورہی۔ ماںہروقت اس کا منہ صاف کرتی دوسراکوئی بدبو کی وجہ سے اس کے نزدیک بھی نہیں آنے آتا تھا۔ سب کو یہی خیال تھا کہ یہ بچے گی نہیں… بس یونہی بچاری تکلیفیں دیکھ رہی ہے۔ پھوڑے کی وجہ سے دانت اکھڑنے شروع ہوگئے‘ بچی خود اپنا دانت نکال کر ماں کے حوالے کرتی اوپر والے چاروں دانت ختم ہوگئے حتیٰ کہ مسوڑھے تک بھی پھوڑے نے کھالیے بچی کمزور تو تھی لیکن عمر تو بڑھ رہی تھی ماں زبردستی چمچ کے ساتھ تھوڑا بہت دودھ اس کو پلا دیتی اسی تکلیف میں بچی تقریباً چار سال کی ہوگئی۔ منہ میں تکلیف ہونے کی وجہ سے وہ بول نہ سکتی تھی جس کی وجہ سے سارے بچے اسے گونگی کہتے۔
خدا کا کرنا کیا ہوا ان ہی دنوں اس گاؤں میں ایک اللہ والے آئے جو ان کے پیر تھے۔ ان پیرصاحب نے جب بچی کو دیکھا تو کہا کہ اس بچی کو بہت زبردست نظر لگی ہوئی ہے میں حیران ہوں کہ یہ بچی زندہ کیسے ہے؟ انہوں نے بچی پر دم کیا ایک تعویذ بنا کر دیا کہ اس تعویذ کو پانی میں ڈال کر بچی کو نہلائیں کچھ تعویذ پینے کیلئے بھی دئیے‘ گلے میں ڈالنے کا تعویذ بھی دیا۔ پیرصاحب کی ہدایت کے مطابق بچی کو تعویذ استعمال کروائے گئے تعویذوں کے اثر اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے سب سے پہلے پھوڑے کی پیپ خشک ہونی شروع ہوگئی‘ آہستہ آہستہ پھوڑا بالکل ختم ہوگیا‘ بچی کھانے پینے کے قابل ہوگئی تو اس کی صحت بھی بحال ہونے لگی‘ منہ کا درد ختم ہوگیا تو جھجک کر بچی بولنے بھی لگی تو آخر کار مکمل باتیں کرنے لگی‘ بس وہ پھوڑا بچی کے دانت لے گیا۔ بچی جب جوان ہوئی تو اس کے مصنوعی دانت لگوائے گئے۔ یہ تھی نظر لگنے کی ایک دردناک روداد۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں